کیا پاکستانی وزیراعظم نے ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیاروں کی بحث ہی ختم کر دی ہے؟

پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے محاذ جنگ میں استعمال ہونے والے ایٹمی ہتھیاروں (ٹیکٹیکل نیوکلیئر ویپنز) کے پاکستان کے پاس نہ ہونے کے دو ٹوک بیان نے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے ایک حصے کے بارے میں کئی برسوں سے جاری متنازع بحث کو سمیٹ دیا ہے۔
وزیراعظم کا یہ بیان کہ پاکستان کے پاس ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار نہیں ہیں، اس موضوع پر اعلیٰ ترین عہدیدار کی طرف سے دیا گیا پہلا باضابطہ اور اعلیٰ ترین سطح کا بیان قرار دیا جا سکتا ہے۔
گو کہ پاکستان نے ان ہتھیاروں کی تیاری کا کبھی اعلان نہیں کیا اور نہ ہی اپنے ذخیرے میں ان کی موجودگی کا اشارہ دیا ہے۔ اس کے باوجود بعض انڈین اور یورپی ماہرین یہ خدشہ ظاہر کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس یہ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔
ٹیکٹیکل ہتھیار ان چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کو کہا جاتا ہے جو دوران جنگ، فوجوں کے آمنے سامنے ہونے کے باوجود استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
یہ ہتھیار اتنے چھوٹے اور محدود دائرہ اثر والے ہوتے ہیں کہ انہیں دشمن کی پیش قدمی کی صورت میں اپنی سرزمین پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہتھیار ایک گولی کی صورت میں ایک مخصوص بندوق سے بھی چلائے جا سکتے ہیں۔
پاکستانی حکومت ہمیشہ سے کہتی رہی ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام انڈیا کی روایتی فوجی برتری کا مقابلہ کرنے کے لیے ہے۔
اسی لیے انڈیا نے چند برس قبل جب ’کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرین‘ کے نام پر ایک مبینہ جارحانہ فوجی حکمت عملی اپنائی تو پاکستانی ایٹمی ماہرین نے اس کے جواب میں زیادہ مؤثر چھوٹے ایٹمی ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا۔
اس فیصلے کا اعلان 9 ستمبر 2015 کو پاکستان کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے اس اعلیٰ ترین ایٹمی پالیسی ساز ادارے کے اجلاس میں پاکستان کی ایٹمی پالیسی کو ایک نیا رخ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا کہ پاکستان نے 'فل سپیکٹرم ڈیٹرنس کیپیبلیٹی' نامی پالیسی کے تحت چھوٹے ایٹمی ہتھیار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
نصر میزائل اسی سلسلے کی ایک کڑی بتائی جاتی ہے لیکن ماہرین 60 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھنے والے اس میزائل کو ٹیکٹیکل میزائل ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹ
پاکستان میں ان چھوٹے ہتھیاروں کی تیاری کے بارے میں پاکستانی ماہرین کی رائے منقسم ہے۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی نگرانی کرنے والے ادارے ایس پی ڈی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد قدوائی کہتے ہیں کہ انڈیا کی جنگی حکمت عملی کا مقابلہ کرنے اور خطے میں طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو ٹیکٹیکل ہتھیار بنانے چاہئیں۔
’اگر آپ دیکھیں کہ ٹیکٹیکل ہتھیاروں کے علاوہ پاکستان کے پاس کس قسم کے جوہری ہتھیار موجود ہیں، تو تب بھی جنوبی ایشیا میں عقل حاوی رہے گی کیونکہ دونوں ملک جانتے ہیں کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو یہ یقینی ہے کہ دونوں ملک تباہ ہو جائیں گے‘۔
بعض دیگر پاکستانی ماہرین ان ٹیکٹیکل ہتھیاروں کے حصول کے مخالف بھی ہیں۔
ایس پی ڈی ہی میں آرمز کنٹرول برانچ کے سابق سربراہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ نعیم احمد سالک کے مطابق ٹیکٹیکل ہتھیاروں کا حصول نا صرف خطرناک بلکہ پاکستان کی ایٹمی پالیسی سے انحراف بھی ہو گا۔
’پاکستان کی ایٹمی پالیسی کا محور دفاع ہے نا کہ جارحیت، اور یہ چھوٹے ایٹمی ہتھیار جارحیت کی نمائندگی کرتے ہیں جو خطے میں استحکام کا ضامن نہیں ہو سکتی۔‘
ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حامی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ان ہتھیاروں کی دیکھ بھال دیگر بڑے ہتھیاروں کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہوتی ہے اور ان ہتھیاروں کے چوری ہونے اور غیر متعلقہ افراد کے ہاتھ لگنے کے امکانات بھی نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

ALTERCASTING THEORY

LANGUAGE EXPECTANCY THEORY

ADAPTIVE STRUCTURATION THEORY